"قوم سے ہنگامی خطاب: جاپانی وزیراعظم مستعفی، اگلا ہدف مودی؟"









 جاپان کے وزیرِاعظم شیگیرو ایشیبا مستعفی، سیاسی غیر یقینی کی نئی لہر

ٹوکیو: جاپان کے وزیرِاعظم شیگیرو ایشیبا نے اتوار کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جس سے دنیا کی چوتھی بڑی معیشت میں پالیسی غیر یقینی کے ایک نئے اور طویل دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔

68 سالہ ایشیبا نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ مسلسل انتخابی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وہ مستعفی ہو رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں حکمران اتحاد نے محض ایک سال کے اندر ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا دونوں میں اکثریت کھو دی، جس پر عوامی ناراضگی میں اضافہ ہوا۔

ایشیبا نے کہا: "امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ مکمل ہونے اور صدر کی جانب سے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط ہونے کے بعد ہم ایک بڑا مرحلہ عبور کر چکے ہیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ یہ بیڑہ نئی نسل کے حوالے کروں۔"

انہوں نے حکم دیا کہ حکمران جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) فوری طور پر ہنگامی قیادت کا انتخاب کرے، البتہ نئے سربراہ کے آنے تک وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے۔

ممکنہ جانشین
جاپانی میڈیا کے مطابق سابقہ قیادت کے رن آف میں ایشیبا کو شکست دینے والی ایل ڈی پی کی سنی رہنما سانائے ٹاکائچی اور زرعی وزیر شنجیرو کوئزومی نمایاں امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹاکائچی کی توسیعی مالی پالیسی اور شرح سود میں اضافے پر محتاط مؤقف مالیاتی منڈیوں کے لیے خاص توجہ کا باعث ہوگا۔

مارکیٹ کا ردعمل
ایشیبا کے اعلان کے بعد جاپانی کرنسی ین اور حکومتی بانڈز پر دباؤ بڑھ گیا۔ ماہرین کے مطابق نئی قیادت کی غیر یقینی صورتحال سے مزید فروخت کے دباؤ کا خدشہ ہے، خاص طور پر اگر نئے وزیراعظم نے عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے قبل از وقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔

عوامی رائے اور چیلنجز
ایشیبا نے اپنی مختصر مدتِ اقتدار کا اختتام امریکہ کے ساتھ 550 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری وعدوں اور تجارتی معاہدے کے ذریعے کیا، جس کے تحت جاپان کو امریکی محصولات میں کمی کی یقین دہانی ملی۔

البتہ وہ اپنے جانشین کے لیے چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے چینی، روسی اور شمالی کوریائی رہنماؤں کی حالیہ مشترکہ فوجی پریڈ کو ایک "سکیورٹی خدشہ" قرار دیا۔

جاپان کی سب سے بڑی بزنس لابی "کیڈانرن" کے چیئرمین یوشی نوبو تسوتسوی نے کہا: "ملکی و عالمی چیلنجز کے تناظر میں وقت ضائع کرنے کا موقع نہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئی قیادت پارٹی کو متحد کرے اور فوری طور پر مؤثر پالیسیز نافذ کرے۔"

عوام بھی نئی قیادت سے معاشی اور سفارتی بحرانوں کے حل کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔


Post a Comment

0 Comments