روس کا یوکرین پر اب تک کا سب سے بڑا فضائی حملہ، کییف کا سرکاری عمارت پہلی بار نشانہ
یوکرینی حکام کے مطابق روس نے یوکرین پر اپنی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی حملہ کیا ہے، جس میں دارالحکومت کییف کی ایک اہم سرکاری عمارت پہلی بار نشانہ بنی۔ حملے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک ماں اور اس کا بچہ بھی شامل ہے۔
دھماکوں اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں 18 افراد زخمی ہوئے جبکہ درجنوں عمارتوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ اوڈیسا، خارکیف، دنیپرو، زاپوریزیا اور کریوی ریہ سمیت کئی شہروں میں بھی دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ صبح 6 بجکر 6 منٹ پر ملک بھر میں فضائی حملے کا الرٹ جاری کیا گیا۔
یوکرین کی وزیرِاعظم یولیا سویریڈینکو نے کہا کہ دشمن نے پہلی بار حکومتی عمارت کو نقصان پہنچایا ہے، چھت اور بالائی منزلیں متاثر ہوئی ہیں۔ "عمارتیں ہم دوبارہ تعمیر کرلیں گے لیکن جو جانیں ضائع ہوئیں وہ واپس نہیں آئیں گی،" انہوں نے کہا۔
صدر ولادیمیر زیلنسکی نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون سے رابطہ کیا اور حملے کے بعد مشترکہ اقدامات پر بات چیت کی۔ برطانوی وزیرِاعظم کیئر سٹارمر نے ان حملوں کو "بزدلانہ" قرار دیا اور کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن امن کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
امریکی وزیرِخزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ واشنگٹن روس پر دباؤ بڑھانے کے لیے تیار ہے لیکن یورپ کو بھی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اور یورپی یونین مزید پابندیاں عائد کریں تو روسی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوسکتی ہے۔
یوکرین کی فضائیہ کے مطابق روس نے 805 ڈرون، 9 کروز میزائل اور 4 بیلسٹک میزائل داغے۔ یوکرینی فورسز نے 747 ڈرون اور 4 کروز میزائل مار گرائے۔
کییف کے میئر وٹالی کلیچکو نے بتایا کہ ایک شیر خوار بچہ اور اس کی ماں ہلاک ہوئے جبکہ پانچ زخمیوں میں ایک حاملہ خاتون بھی شامل ہے۔ ایک معمر خاتون بم شیلٹر میں دم توڑ گئیں۔ متعدد رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں اور کئی مقامات پر آگ بھڑک اٹھی۔
زاپوریزیا میں کم از کم 15 افراد زخمی ہوئے جبکہ اوڈیسا میں کئی اپارٹمنٹس اور شہری تنصیبات تباہ ہوئیں۔ شمالی علاقے سومی میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے جن میں ایک 9 سالہ بچہ بھی شامل ہے۔
پولینڈ نے فضائی خطرات کے پیشِ نظر اپنی اور اتحادی افواج کی ایئر فورس کو الرٹ کر دیا ہے۔
ماسکو کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ روس اور یوکرین دونوں فریقین شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتے ہیں، تاہم اب تک جنگ میں ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
0 Comments