🎥 عنوان: "ایگور ارٹیشوف – روس کا سب سے خطرناک درندہ"
Igor Irtyshov: Russia’s Most Dangerous Serial Killer
تعارف:
روس کی برف میں چھپے ہوئے کئی راز ہوتے ہیں، لیکن کچھ راز اتنے تاریک ہوتے ہیں کہ پورا معاشرہ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
یہ کہانی ہے ایک ایسے درندے کی، جس نے معصوم بچوں کو اپنا شکار بنایا، ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا، اور ہر بار قانون کو چکمہ دے کر بچ نکلتا رہا۔
یہ ہے کہانی ایگور ارٹیشوف کی — ایک ایسا نام جو آج بھی روسی جرائم کی تاریخ میں خوف اور نفرت کا استعارہ ہے۔
باب 1: ایک برباد بچپن
ایگور ارٹیشوف 1971 میں روس کے علاقے اورینبرگ میں پیدا ہوا۔ اس کا بچپن محرومی، غربت اور جنسی استحصال سے بھرا ہوا تھا۔
چھوٹی عمر میں ہی وہ خود جنسی تشدد کا شکار رہا — اور یہی اس کے ذہن میں نفرت، بربادی اور غصے کے بیج بو گیا۔
وہ اسکول سے بھاگ جاتا، جانوروں کو تکلیف دیتا، اور چھوٹی موٹی چوریوں میں ملوث رہتا۔
باب 2: جرائم کا آغاز – معصومیت کا قتل
ایگور نے اپنی نوجوانی میں ہی بچوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ وہ اسکول کے بچوں کو ورغلاتا، انہیں تنہا جگہوں پر لے جا کر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا — اور کئی کو زندہ ہی مار ڈالتا۔
اس کے شکار عموماً کم عمر لڑکے ہوتے تھے — جو کبھی واپس اپنے گھروں کو نہ پہنچتے۔
اس کا پہلا معلوم قتل 1993 میں رپورٹ ہوا — مگر پولیس کے پاس اس وقت کوئی ثبوت یا سراغ نہ تھا۔
باب 3: خاموشی کا دائرہ – قانون کی ناکامی
ایگور کئی بار گرفتار ہوا — چھوٹے جرائم کے الزام میں — مگر اصل حقیقت کبھی سامنے نہ آ سکی۔
وہ مختلف شہروں میں نقل مکانی کرتا رہا۔ کبھی سڑکوں پر، کبھی پارکوں میں، کبھی خالی گھروں میں… اس کا طریقہ واردات مسلسل بدلتا رہا۔
اس کی سب سے خوفناک بات یہ تھی کہ وہ صرف جسمانی نہیں، نفسیاتی اذیت بھی دیتا تھا۔
وہ کئی بچوں کو زندہ چھوڑ دیتا، مگر اتنی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ کہ وہ عمر بھر کچھ بولنے کے قابل نہ رہتے۔
باب 4: آخری شکار – اور ایک بڑی غلطی
1999 میں، سینٹ پیٹرزبرگ میں ایک لڑکے نے اسپتال میں دم توڑ دیا — جس کے جسم پر بربریت کے نشانات تھے۔
مگر مرنے سے پہلے، اس بچے نے ایگور کا حلیہ بیان کر دیا۔
پولیس نے فوری طور پر ماضی کے کیسز کھنگالے، اور آخرکار تمام دھاگے ایک ہی نام پر جا کر ختم ہوئے: ایگور ارٹیشوف۔
اسے سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا — اور اس کے قبضے سے بچوں کی چیزیں، خون آلود کپڑے، اور ویڈیو ٹیپس برآمد ہوئیں۔
باب 5: عدالت، سزا اور انصاف
ایگور نے عدالت میں اعتراف جرم کیا — لیکن ایک عجیب سی بےحسی کے ساتھ۔
اس کے چہرے پر ندامت کا ایک بھی شائبہ نہ تھا۔ اس نے کہا:
"میں جو کرتا رہا، اس میں مجھے خوشی ملتی تھی۔"
عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی — مگر کئی روسی شہری چاہتے تھے کہ اسے موت کی سزا دی جائے۔
باب 6: ایک نفسیاتی مطالعہ – درندہ انسان کے لباس میں
ماہرین نفسیات نے اسے "سائیکوپیتھ" اور "پیڈوفائل" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ:
-
ایگور میں ہمدردی کا عنصر مکمل طور پر ختم تھا
-
وہ صرف تکلیف دے کر خوشی محسوس کرتا تھا
-
اس کے ذہن میں بچپن کا انتقام ہی زندگی کا مقصد بن چکا تھا
اختتام: ایک شیطان جو انسانوں میں چھپا تھا
ایگور ارٹیشوف کا کیس ہمیں ایک خوفناک سچ بتاتا ہے:
سب سے زیادہ خطرناک درندے وہ ہوتے ہیں جو عام نظر آتے ہیں۔
وہ انسانوں کی بھیڑ میں چھپ جاتے ہیں… اور جب تک ان کا پردہ فاش ہو، تب تک بہت کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔
"ایگور صرف ایک قاتل نہیں… وہ ایک داغ ہے — جو روس کی زمین پر ان بچوں کے خون سے لگا، جن کی زندگیاں اس نے چھین لیں۔"
0 Comments