دنیا میں ایک ہی شخص ایسا گزرا ہے جس نے 2 ایٹم بم دھماکوں کا سامنا کیا اور زندہ بچنے میں کامیاب ہوگیا۔
جاپان سے تعلق رکھنے والے انجینئر سوٹومو یاماگوچی اس وقت ہیروشیما میں تھے جب امریکا کی جانب سے دنیا میں پہلی بار ایک ایٹم بم کو گرایا گیا۔
وہ ایک شیلٹر میں چھپ کر بچنے میں کامیاب رہے اور پھر پہلی ٹرین پر سوار ہوکر ہیروشیما سے نکل کر ناگاساکی چلے گئے۔
حیران کن طور پر وہ ناگاساکی میں گرائے جانے والے دوسرے ایٹم بم سے بھی بچنے میں کامیاب رہے، اب ان کی زندگی پر ہالی وڈ کے معروف ڈائریکٹر جیمز کیمرون فلم بنانے جا رہے ہیں۔
ٹائی ٹینک، ٹرمینیٹر اور اواتار جیسی فلمیں بنانے والے جیمز کیمرون 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں کے حوالے سے نئی فلم تیار کریں گے۔
گھوسٹس آف ہیروشیما نامی فلم اس نام کے ناول پر مبنی ہوگی جس میں ان جاپانی شہریوں کی کہانی بیان کی جائے گی جو جوہری دھماکوں میں بچ گئے تھے۔
ایک انٹرویو میں جیمز کیمرون نے بتایا کہ اس فلم میں سوٹومو یاماگوچی کی حیران کن کہانی کے ذریعے دھماکوں کے بعد کے اثرات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
سوٹومو یاماگوچی کی کہانی کیا ہے؟
سوٹومو یاماگوچی ایک انجینئر تھے جو اپنے کام کے لیے اس وقت ہیروشیما میں موجود تھے جب امریکا کی جانب سے 6 اگست 1945 کو پہلا ایٹم بم گرایا گیا۔
وہ بچنے میں کامیاب رہے اور ٹرین کے ذریعے اپنی ملازمت پر واپس گئے اور ان کی منزل ناگاساکی تھی۔
حیران کن طور پر 9 اگست کو وہاں گرائے جانے والے ایٹم بم کے دھماکے میں بھی وہ بچ گئے۔
ان کا انتقال 2010 میں 93 سال کی عمر میں ہوا۔
پہلے ایٹم بم دھماکے کے بعد ان کو یقین تھا کہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا، دھماکے سے ان کا جسم کچھ جل گیا تھا اور وہ خوفزدہ ہوگئے تھے۔
انہوں نے بم شیلٹر میں رات گزاری اور اگلے دن ناگاساکی پہنچ کر اپنے باس سے اس بارے میں بات کی جس نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا۔
زندگی میں اتنے خوفزدہ کر دینے والے واقعات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود سوٹومو یاماگوچی کا انسانیت کی اچھائی پر یقین برقرار رہا اور جیمز کیمرون اسی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے سوٹومو یاماگوچی سے ان کے انتقال سے قبل ملاقات بھی کی تھی اور فلم بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ فلم وہ اواتار 4 سے قبل بنا کر ریلیز کریں گے اور ان کے خیال میں یہ ان کی سب سے کم بزنس کرنے والی فلم ثابت ہوگی۔
0 Comments