Rangeela ki painful Story








 🎭 رنگیلا – پشاور کی گلیوں سے شہرت کے آسمان تک، ایک عظیم مگر دکھ بھری کہانی

ایک یتیم لڑکے کا پاکستان کا سب سے بڑا کامیڈین، اداکار، گلوکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بننے تک کا سفر


🧒 ابتدائی زندگی – یتیمی، غربت اور جدوجہد

رنگیلا، جن کا اصل نام سعید خان تھا، 1937 میں پشاور میں پیدا ہوئے۔
بچپن میں ہی یتیم ہو گئے، والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ غربت کے سائے اتنے گہرے تھے کہ کھانے کو روٹی نہیں، سر پر چھت نہیں، مستقبل کی کوئی امید نہیں۔ مگر دل میں ایک چمک تھی — فن کا شوق، اور چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کا ہنر۔


🏃 پشاور سے لاہور کا سفر – مزدور سے آرٹسٹ تک

نوعمری میں رنگیلا روزگار کی تلاش میں لاہور آ گئے۔
کئی سال لاہور کی گلیوں اور سڑکوں پر مزدوری کی، دیواریں پینٹ کیں، اشتہار لکھے، پوسٹر بنائے۔
اسی دوران ان کا واسطہ فلم انڈسٹری کے کچھ لوگوں سے پڑا۔ ان کے انداز، معصومیت اور مذاق کرنے کی صلاحیت نے سب کو متاثر کیا۔

پہلی بار انہوں نے بطور فلم ایکسٹرا کام کیا، مگر قسمت کی چابی کھلنے والی تھی۔


🎬 فلمی کیریئر – کامیڈی کا بے تاج بادشاہ

1950 کی دہائی میں رنگیلا نے باقاعدہ فلمی دنیا میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پاکستان کے سب سے مقبول کامیڈین بن گئے۔

ان کی اداکاری میں:

  • معصومیت

  • جسمانی حرکتوں پر مبنی مزاح

  • اور انفرادیت تھی

فلم "دِل اور دنیا"، "عورت راج"، "رنگیلا"، "اکیلا"، اور "رنگیلا 007" نے انہیں بلندیوں پر پہنچا دیا۔


🎤 ہمہ جہت فنکار – گلوکار، ہدایتکار، پروڈیوسر

رنگیلا صرف اداکار نہیں، ایک فنکارِ کامل تھے:

  • انہوں نے اپنی فلمیں خود پروڈیوس کیں

  • خود ڈائریکشن دی

  • کئی گانے خود گائے جنہیں بے پناہ شہرت ملی

  • ان کے گائے گانے "گا میرے منوا گاتا جا رے" آج بھی یاد کیے جاتے ہیں


🏠 شہرت اور دولت – سات کنال کا محل نما بنگلہ

رنگیلا نے اتنی شہرت اور دولت کمائی کہ لاہور میں سات کنال کا شاندار گھر خریدا۔
وہ ایک وقت میں پاکستان کے امیر ترین فلمی فنکاروں میں شمار ہوتے تھے۔


💸 زوال – شہرت کا سورج غروب ہوا

1990 کی دہائی میں فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہوئی۔ نئے لوگ، نیا مزاح، اور نئی نسل رنگیلا کے انداز سے دور ہونے لگی۔

  • فلمیں فلاپ ہونے لگیں

  • کاروبار ڈوبا

  • اور آہستہ آہستہ قرض بڑھتا گیا

ایک دن آیا جب رنگیلا کا بنگلہ نیلام ہو گیا۔ وہ جو لاکھوں کماتے تھے، اب علاج کے لیے بھی محتاج ہو چکے تھے۔


🕯️ آخری دن – خاموشی اور بے بسی

رنگیلا 2005 میں طویل علالت کے بعد کئی بیماریاں سہتے ہوئے انتقال کر گئے۔
ان کی موت خاموش تھی، دکھ بھری تھی، اور افسوسناک تھی۔
وہ جو پوری قوم کو ہنسانے والا تھا، اپنے آخری دن بستر پر تنہا گزار گیا۔


📌 سبق آموز نتیجہ:

  • شہرت اور دولت عارضی ہوتی ہے

  • فنکاروں کی قدر ان کے جیتے جی کرنی چاہیے

  • رنگیلا کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ پختہ ارادہ اور خالص جذبہ کسی کو بھی بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے، مگر استحکام کے لیے سادہ طرزِ زندگی، شعور اور حفاظت ضروری ہے


🕊️ خراجِ تحسین:

"وہ ہنساتا تھا، خود رو رہا تھا
چہرے پر مسکراہٹ، دل میں تنہائی تھی"



Post a Comment

0 Comments